"GENERAL ARTICLES"
"BISMILLA HIRRAHMAAN NIRRAHEEM"
WELCOME! - AS'SALAMU ALAIKUM!! ******** ***** *****
[All] praise is [due] to Allah, Lord of the worlds; - Guide us to the straight path
*- -*
* * In this Blog; More Than Ten Thousand(10,000) {Masha Allah} - Most Usefull Articles!, In Various Topics!! :- Read And All Articles & Get Benifite! * Visit :-
*- WHAT ISLAM SAYS -* - Islam is a religion of Mercy, Peace and Blessing. Its teachings emphasize kind hear tedness, help, sympathy, forgiveness, sacrifice, love and care.Qur’an, the Shari’ah and the life of our beloved Prophet (SAW) mirrors this attribute, and it should be reflected in the conduct of a Momin.Islam appreciates those who are kind to their fellow being,and dislikes them who are hard hearted, curt, and hypocrite.Recall that historical moment, when Prophet (SAW) entered Makkah as a conqueror. There was before him a multitude of surrendered enemies, former oppressors and persecutors, who had evicted the Muslims from their homes, deprived them of their belongings, humiliated and intimidated Prophet (SAW) hatched schemes for his murder and tortured and killed his companions. But Prophet (SAW) displayed his usual magnanimity, generosity, and kind heartedness by forgiving all of them and declaring general amnesty...Subhanallah. May Allah help us tailor our life according to the teachings of Islam. (Aameen)./-
"INDIA "- Time in New Delhi -
''HASBUNALLAHU WA NI'MAL WAKEEL'' - ''Allah is Sufficient for us'' + '' All praise is due to Allah. May peace and blessings beupon the Messenger, his household and companions '' (Aameen)
NAJIMUDEEN M
Dua' from Al'Qur'an - for SUCCESS in 'both the worlds': '' Our Lord ! grant us good in this world and good in the hereafter and save us from the torment of the Fire '' [Ameen] - {in Arab} :-> Rabbanaa aatinaa fid-dunyaa hasanatan wafil aakhirati hasanatan waqinaa 'athaaban-naar/- (Surah Al-Baqarah ,verse 201)*--*~
Category - *- About me -* A note for me *-* Aa My Public Album*-* Acts of Worship*-* Ahlesunnat Wal Jamat*-* Asmaul husna*-* Belief in the Last Day*-* Between man and wife*-* Bible and Quran*-* Bioghraphy*-* Commentary on Hadeeth*-* Conditions of Marriage*-* Da'eef (weak) hadeeths*-* Darwinism*-* Dating in Islam*-* Description of the Prayer*-* Diary of mine*-* Discover Islam*-* Dought & clear*-* Duas*-* Eid Prayer*-* Engagment*-* Family*-* Family & Society*-* family Articles*-* Family Issues*-* Fasting*-* Fathwa*-* Fiqh*-* For children*-* Gender differences*-* General*-* General Dought & clear*-* General hadeeths*-* General History*-* Hadees*-* Hajj*-* Hajj & Umrah*-* Hazrat Mahdi (pbuh)*-* Health*-* Health and Fitness*-* Highlights*-* Hijaab*-* Holiday Prayer*-* I'tikaaf*-* Imp of Islamic Months*-* Innovations in Religion and Worship*-* Islamic Article*-* Islamic History*-* Islamic history and biography*-* Islamic Months*-* Islamic story*-* Issues of fasting*-* Jannah: Heaven*-* jokes*-* Just know this*-* Kind Treatment of Spouses*-* Links*-* Making Up Missed Prayers*-* Manners of Greeting with Salaam*-* Marital Life*-* Marriage in Islam*-* Menstruation and Post-Natal bleeding*-* Miracles of Quran*-* Moral stories*-* Names and Attributes of Allaah*-* Never Forget*-* News*-* Night Prayer*-* Notes*-* Other*-* Personal*-* Personalities*-* Pilgrimage*-* Plural marriage*-* Prayer*-* Prayers on various occasions*-* Principles of Fiqh*-* Qanoon e Shariat*-* Qur'an*-* Qur'an Related*-* Quraanic Exegesis*-* Ramadan Articles*-* Ramadan File*-* Ramadhan ul Mubarak*-* Sacrifices*-* Saheeh (sound) hadeeths*-* Schools of Thought and Sects*-* Seerah of Prophet Muhammad (pbuh)*-* Sex in Islam*-* Sharia and Islam*-* Shirk and its different forms*-* Sms, jokes, tips*-* Social Concerns*-* Soul Purification*-* Story*-* Sufi - sufi path*-* Supplication*-* Taraaweeh prayers*-* The book of Prayer*-* Tips & Tricks*-* Tourist Place*-* Trust (amaanah) in Islam*-* Welcome to Islam*-* Women in Ramadaan*-* Women site*-* Women Who are Forbidden for Marriage*-* Womens Work*-* Youth*-* Zakath*-*
*- Our Nabi' (s.a.w) Most Like this Dua' -*
"Allahumma Salli'Alaa Muhammadin Wa 'Alaa'Aali Muhammadin, kamaa Sallayta 'Alaa' Ibraheema wa 'Alaa 'Aali 'Ibraheema, 'Innaka Hameedun Majeed. Allahumma Baarik'Alaa Muhammadin Wa 'Alaa'Aali Muhammadin, kamaa Baarakta 'Alaa' Ibraheema wa 'Alaa 'Aali 'Ibraheema, 'Innaka Hameedun Majeed." ******
"Al Qur'an - first Ayath, came to our Nabi (s.a.w)
"Read! In the name of yourLord Who created. Created man from clinging cells. Read! And your Lord is Most Bountiful. The One Who taught with the Pen. Taught man what he did not know." (Qur'an 96: 1-5) - ~ - ~ - lt;18.may.2012/friday-6.12pm:{IST} ;(Ayatul Kursi Surah Al-Baqarah, Ayah 255/)
*- Al Qur'an's last ayath came to Nabi{s.a.w} -*
Allah states the following: “Thisday have I perfected your religion for you, completed My favour upon you, and have chosen for you Islam as your religion.” [Qur’an 5:3]
Surat alAhzab 40; Says Our Prophet Muhammad (s.a.w) is the final Prophet sent by Allah'
↓TRANSLATE THIS BLOG↓
IndonesiaArabicChinaEnglishSpanishFrenchItalianJapanKoreanHindiRussian
ShareShare

Follow Me

* A Precious DUA' *
Dua' - '' All praise is due to Allah'. May peace and blessings beupon the Messenger, his household and companions '' - - - O Allah, I am Your servant, son of Your servant, son of Your maidservant; my forelock is in Your hand; Your command over me is forever executed and Your decree over me is just; I ask You by every name belonging to You that You have named Yourself with, or revealed in Your book, ortaught to any of Your creation, or have preserved in the knowledge of the unseen with You, that You make the Qur'an thelife of my heart and the light of my breast, and a departure for my sorrow and a release from my anxiety.
- Tamil -- Urdu -- Kannada -- Telugu --*- ShareShare
**
ShareShare - -*-
tandapanahkebawah.gifbabby-gif-240-240-0-24000.giftandapanahkebawah.gif400692269-4317571d76.jpeg wall-paper.gif story.gif
*: ::->
*

Wednesday, December 25, 2013

Personalities, - Shah Abdul Haq Muhaddith Dehlvi





شیخ محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالی عنہ بن سیف الدین بن سعد اللہ بن شیخ فیروز بن ملک موسی بن ملک معز الدین بن آغا محمد ترک بخاری کی ولادت ماہ محرم ۹۵۸ھ /۱۵۵۱ء کو دہلی میں ہوئی ۔یہ سلیم شاہ سوری کا زمانہ تھا ، مہدوی تحریک اس وقت پورے عروج پر تھی جسکے بانی سید محمد جونپوری تھے ۔ شیخ کی ابتدائی تعلیم وتربیت خود والد ماجد کی آغوش ہی میں ہوئی ۔والد ماجد نے انکو بعض ایسی ہدایتیں کی تھیں جس پر آپ تمام عمر عمل پیرا رہے ، قرآن کریم کی تعلیم سے لیکر کافیہ تک والد ماجد ہی سے پڑھا۔
شیخ سیف الدین اپنے بیٹے کی تعلیم خود اپنی نگرانی میں مکمل کرانے کیلئے بے چین رہتے تھے ، انکی تمنا تھی کہ وہ اپنے جگر گوشہ کے سینہ میں وہ تمام علوم منتقل کر دیں جو انہوں نے عمر بھر کے ریاض سے حاصل کئے تھے ، لیکن انکی پیرانہ سالی کا زمانہ تھا ، اس لئے سخت مجبور بھی تھے کبھی کتابوں کا شمار کرتے اور حسرت کے ساتھ کہتے کہ یہ اور پڑ ھالو ں ۔پھر فرماتے ۔
مجھے بڑ ی خوشی ہوتی ہے جس وقت یہ تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو اس کمال تک پہونچادے جو میں نے خیال کیا ہے ۔
حضرت شخ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے صر ف تین ماہ میں پورا قرآن پاک مکمل قواعد کے ساتھ اپنے والد ماجد سے پڑھ لیا۔ اورایک ماہ میں کتابت کی قدرت اور انشاء کا سلیقہ حاصل ہو گیا اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے تمام علوم عقلیہ اور نقلیہ اپنے والد ماجد سے حاصل کر لیے ۔اس دوران آپ نے جید علماء کرام سے بھی اکتساب علم کیا ۔
شیخ محدث خود بے حد ذہین تھے ، طلب علم کا سچا جذبہ تھا ، بارہ تیرہ برس کی عمر میں شرح شمسیہ اورشرح عقائد پڑ ھ لی اور پندرہ برس کی عمر ہو گی ، کہ مختصر ومطول سے فارغ ہوئے ، اٹھا رہ برس کی عمر میں علوم عقلیہ ونقلیہ کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسکی سیر نہ کر چکے ہوں ۔
عربی میں کامل دستگاہ اور علم کلام ومنطق پر پورا عبور حاصل کرنے کے بعد شیخ محدث نے دانشمندان ماوراء النہر سے اکتساب کیا ۔شیخ نے ان بزرگوں کے نام نہیں بتائے ، بہرحال ان علوم کے حصول میں بھی انکی مشغولیت اور انہماک کا یہ عالم رہا کہ رات ودن کے کسی حصہ میں فرصت نہ ملتی تھی ۔
شیخ نے پاکئی عقل وخرد کے ساتھ ساتھ عفت قلب ونگاہ کا بھی پوراپورا خیال رکھا ، بچپن سے انکو عبادت وریاضت میں دلچسپی تھی ، انکے والد ماجد نے ہدایت کی تھی ۔
ملائے خشک ونا ہموار نباشی
چنانچہ عمر بھر انکے ایک ہاتھ میں جام شریعت رہا اور دوسرے میں سندان عشق ۔والد ماجد نے ان میں عشق حقیقی کے وہ جذبات پھونک دیئے تھے جو آخر عمر تک انکے قلب وجگر کو گرماتے رہے ۔
اس زمانہ میں شیخ محدث کو علماء ومشائخ کی صحبت میں بیٹھنے اور مستفید ہونے کا بڑ ا شوق تھا ، اپنے مذہبی جذبات اور خلوص نیت کے باعث وہ ان بزرگوں کے لطف وکرم کا مرکز بن جاتے تھے ۔
شیخ اسحاق متوفی ۹۸۹ھ سہروردیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ تھے اور ملتان سے دہلی سکونت اختیار کر لی تھی ، اکثر اوقات خاموش رہتے لیکن جب شیخ انکی خدمت میں حاضر ہوتے تو بے حد التفات و کرم فرماتے ۔
شیخ نے تکمیل علم کے بعد ہندوستان کیوں چھوڑا اسکی داستان طویل ہے ، مختصر یہ کہ اپ کچھ عرصہ فتح پور سیکری میں رہے ، وہاں اکبر کے درباریوں نے آپکی قدر بھی کی لیکن حالات کی تبدیلی نے یوں کروٹ لی کہ اکبر نے دین الہی کا فتنہ کھڑا کر دیا۔ ابو الفضل اور فیضی نے اس دینی انتشار کی رہبری کی ، یہ دیکھ کر آپکی طبیعت گھبرا گئی ، ان حالات میں ترک وطن کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، لہذا آپ نے غیرت دینی سے مجبور ہوکر حجاز کی راہ لی ۔
۹۹۶ھ میں جبکہ شیخ کی عمر اڑ تیس سال تھی وہ حجاز کی طرف روانہ ہوگئے ۔وہاں پہونچ کر آپ نے تقریباً تین سال کا زمانہ شیخ عبدالوہاب متقی کی خدمت میں گذرا ۔انکی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ، شیخ نے علم کی تکمیل کرائی اور احسان وسلوک کی را ہوں سے آشنا کیا ۔
شیخ عبدالوہاب متقی نے آپکو مشکوة کا درس دینا شروع کیا ، درمیان میں مدینہ طیبہ کی حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا اور پھر تین سال کی مدت میں مشکوة کا درس مکمل ہوا ۔
اسکے بعد آداب ذکر ، تقلیل طعام وغیرہ کی تعلیم دی اور تصوف کی کچھ کتابیں پڑ ھائیں ۔ پھر حرم شریف کے ایک حجرہ میں ریاضت کیلئے بٹھادیا ۔شیخ عبدالوہاب متقی نے اس زمانہ میں انکی طرف خاص توجہ کی ۔ ان کا یہ دستور تھا کہ ہر جمعہ کو حرم شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے ۔ جب یہاں آتے تو شیخ عبدالحق سے بھی ملتے اور انکی عبادت وریاضت کی نگرانی فرماتے ۔
فقہ حنفی کے متعلق شیخ محدث کے خیالات قیام حجاز کے دوران بدل گئے تھے اور وہ شافعی مذہب اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ، شیخ عبدالوہاب کو اس کا علم ہوا تو مناقب امام اعظم پر ایسا پرتاثیر خطبہ ارشاد فرمایا کہ شیخ محدث کے خیالات بدل گئے اور فقہ حنفی کی عظمت ان کے دل میں جاگزیں ہوگئی ۔حدیث ، تصوف فقہ حنفی اور حقوق العباد کی اعلی تعلیم در حقیقت شیخ عبدالوہاب متقی کے قدموں میں حاصل کی ۔
علم وعمل کی سب وادیوں کی سیر کرنے کے بعد شیخ عبدالوہاب متقی نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کو ہندوستان واپس جانے کی ہدایت کی اور فرمایا ۔
اب تم اپنے گھر جاؤ کہ تمہاری والدہ اور بچے بہت پریشان حال اورتمہارے منتظر ہونگے ۔
شیخ محدث ہندوستان کے حالات سے کچھ ایسے دل برداشتہ ہو چکے تھے کہ یہاں آنے کو مطلق طبیعت نہ چاہتی تھی ۔لیکن شیخ کا حکم ماننا ازبس ضروری تھا ، شیخ نے رخصت کرتے وقت حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک، پیراہن مبارک عنایت فرمایا ۔
آپ ۱۰۰۰ھ میں ہندوستان واپس آئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر کے غیر متعین مذہبی افکار نے دین الہی کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ملک کا سارا مذہبی ماحول خراب ہو چکا تھا ۔شریعت وسنت سے بے اعتنائی عام ہوگئی تھی ۔دربار میں اسلامی شعار کی کھلم کھلا تضحیک کی جاتی تھی ۔
حجاز سے واپسی پر شیخ عبدالحق نے دہلی میں مسند درس وارشاد بچھادی ۔شمالی ہندوستان میں اس زمانہ کا یہ پہلا مدرسہ تھا جہاں سے شریعت وسنت کی آواز بلند ہوئی ۔درس وتدریس کا یہ مشغلہ آپ نے آخری لمحات تک جاری رکھا ۔انکا مدرسہ دہلی ہی میں نہیں سارے شمالی ہندوستان میں ایسی امتیازی شان رکھتا تھا کہ سیکڑ وں کی تعداد میں طلبہ استفادہ کیلئے جمع ہوتے اور متعدد اساتذہ درس وتدریس کاکام انجام دیتے تھے ۔
یہ دارالعلوم اس طوفانی دور میں شریعت اسلامیہ اور سنت نبویہ کی سب سے بڑ ی پشت پناہ تھا ، مذہبی گمراہیوں کے بادل چاروں طرف منڈلائے ، مخالف طاقتیں باربار اس دارالعلوم کے بام ودرسے ٹکرائیں لیکن شیخ محدث کے پائے ثبات میں ذرابھی لغزش پید انہ ہوئی ۔آپنے عزم واستقلال سے وہ کام انجام دیا جو ان حالات میں ناممکن نظر آتا تھا ۔
شیخ نے سب سے پہلے والد ماجد سے روحانی تعلیم حاصل کی تھی اور انہیں کے حکم سے حضرت سید موسی گیلانی کے حلقہ مریدین میں شامل ہوئے ۔ یہ سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتب بزرگ تھے ۔مکہ معظمہ سے بھی سلسلہ قادریہ ، چشتیہ ، شاذلیہ اور مدینیہ میں خلافت حاصل کی ۔
ہندوستان واپسی پر حضرت خواجہ باقی باللہ کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوئے ۔ حضرت خواجہ باقی باللہ کی ذات گرامی احیاء سنت اور اماتت بدعت کی تمام تحریکوں کا منبع و مخرج تھی ۔انکے ملفوظات ومکتوبات کا ایک ایک حرف انکی مجد دانہ مساعی ، بلندی فکرونظر کا شاہد ہے ۔
شیخ کا قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا ، انکی عقیدت وارادت کا مرکز حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ انکے دل ودماغ کا ریشہ ریشہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے عشق میں گرفتار تھا ، یہ سب کچھ آپکی تصانیف سے ظاہر وباہر ہے ۔
حضرت شیخ محدث دہلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کوسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد عقیدت ومحبت تھی ۔اسی عقیدت ومحبت کی بناء پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے محبت رکھتے تھے آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ جب بھی مدینہ شریف حاضر ہوتے تو اپنے جوتے اتار دیتے اور ننگے پائوں رہتے ۔آپ نے تین سال حجاز مقدس میں قیام فرمایا ۔آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ چار مرتبہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی سلیم شاہ بنوری کے عہد میں پیدا ہوئے اور شاہجہاں کے سنہ جلوس میں وصال فرمایا ۔
اکبر ، جہانگیر اور شاہجہاں کا عہد انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حالات کا بغور مطالعہ کیا تھا لیکن انہوں نے کبھی سلاطین یا ارباب حکومت سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔عمر بھر گوشہ تنہائی میں رہے۔
وصال شریف
۲۱ ربیع الاول ۱۰۵۲ھ کو یہ آفتاب علم جس نے چورانوے سال تک فضائے ہند کو اپنی ضو فشانی سے منور رکھا تھا غروب ہو گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپ کی وصیت کے مطابق حوض شمسی کے کنارے سپرد خاک کیا گیا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی دعا
اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں، میرے تمام اعمال فساد نیت کا شکار ہیں البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل )اور لائق التفات( ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی و انکساری، محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے بڑھ کر تیری طرف سے خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے؟ اس لئے اے ارحم الراحمین مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ یقیناً تیری بارگاہ میں قبول ہو گا اور جو کوئی درود و سلام پڑھے اور اس کے ذریعے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔)اخبار الاخیار : 624(
تصانیف
آپکی تصانیف سوسے زائد شمار کی گئی ہیں ، المکاتیب والرسائل کے مجموعہ میں ۶۸رسائل شامل ہیں ، انکو ایک کتاب شمار کرنے والے تعداد تصنیف پچاس بتاتے ہیں ۔
آپ نے بیسوں موضوعات پر لکھا لیکن آپ کا اصل وظیفہ احباء سنت اور نشر احادیث رسول تھا ، اس لئے اس موضوع پر آپنے ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں ، چند کتابیں نہایت مشہور ہیں ۔
اشعة اللمعات۔اشعة اللمعات فارسی زبان میں مشکوة کی نہایت جامع اور مکمل شرح ہے ۔ شیخ محدث نے یہ کارنامہ چھ سال کی مدت میں انجام دیا ۔
لمعات التنقیح۔عربی زبان میں مشکوة کی شرح ہے ، دوجلدوں پر مشتمل ، فہرست التوالیف میں شیخ نے سر فہرست ا سکا ذکر کیا ہے ، اشعة اللمعات کی تصنیف کے دوران بعض مضامین ایسے پیش آ ئے جن کی تشریح کو فارسی میں مناسب نہ سمجھاکہ یہ اس وقت عوام کی زبان تھی ، بعض مباحث میں عوام کو شریک کرنا مصلحت کے خلاف تھا ، لہذا جو باتیں قلم ا انداز کر دی تھیں وہ عربی میں بیان فرمادیں ۔لمعات میں لغوی ، نحوی مشکلات اور فقہی مسائل کو نہایت عمدہ گی سے حل کیا گیا ہے ۔علاوہ ازیں احادیث سے فقہ حنفی کی تطبیق نہایت کامیابی کے ساتھ کی گئی ہے ۔ اسی طرح دوسری تصانیف حدیث واصول پر آپکی بیش بہا معلوما ت کا خزانہ ہیں ۔
اخبار الاخیار۔حضرت شیخ عبدالخق محدث دہلوی کی مشہور و معروف تصنیف اخبار الاخیار میں ہند و پاک کے تقریباً تین سو اولیائے کرام و صوفیائے عظام کا مشہور و مستند تذکره ہے جس میں علماء و مشائخ کی پاکیزه زندگیوں کی دل آویز داستانیں پوری تحقیق سے لکهی گئی ہیں
ان کے علاوہ
مدارج النبوة
ما ثبت من السنة
جمع البحرین ذاد المتیقین
شرح اسماء الرجال بخاری وغیرہ
شیخ کی علمی خدمات کے ساتھ عظیم خیانت
شیخ کی علمی خدمات کا ایک شاندار پہلو یہ ہے کہ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک فقہ وحدیث میں تطبیق کی اہم کو شش فرمائی ۔ بعض لوگوں نے اس سلسلہ میں انکی خدمات کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے ۔
مثلا نواب صدیق حسن خاں نے لکھا :۔
فقیہ حنفی وعلامہ دین حنفی است ، اما بمحدث مشہور است
شیخ محقق فقہاء احناف سے تھے اور دین حنیف کے زبر دست عالم لیکن محدث مشہور ہیں۔
یعنی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ شہرت واقعی نہ تھی ، گویا محدث ہونا اسی صورت میں متصور ہوتا ہے جب کسی امام کی تقلید کا قلادہ گردن میں نہ ہو۔
مزید لکھا : ۔
دستگاہش درفقہ بیشتر ازمہارت درعلوم سنت سنیہ ست ۔ولہذا جانب داری اہل رائے جانب اوگرفتہ ۔معہذا جاہا حمایت سنت صحیحہ نیز نمودہ ۔طالب علم راباید کہ درتصانیف وے ’’ خذما صفا ودع ماکدر ‘‘ پیش نظر دارد وزلات تقلید اورابر محامل نیک فرود آرد۔از سوء ظن در حق چنیں بزرگواراں خود را دور گرداند ۔
شیخ علم فقہ میں بہ نسبت علوم سنت زیادہ قدرت رکھتے تھے ، لہذا فقہاء رائے زیادہ تر انکی حمایت کرتے ہیں ، ان تمام چیزوں کے باوجود انہوں نے سنن صحیحہ کی حمایت بھی کی ہے ۔ لہذا طالب علم کو چاہیئے کہ انکی صحیح باتیں اختیار کرے اور غیر تحقیق باتوں سے پرہیز کرے ۔لیکن انکے تقلید ی مسائل کو اچھے مواقع ومحامل پر منطبق کرنا چاہیئے ۔اسے بزرگوں سے بد گمانی اچھی چیز نہیں ۔
اہل علم پر واضح ہے کہ یہ رائے انصاف ودیانت سے بہت دور اور پر تشدد خیالات کو ظاہر کرتی ہے ۔
شیخ محدث کا اصل مقصد یہ تھا کہ فقہ اسلامی کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے ۔ اس لئے کہ ا سکی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے اور وہ ایک ایسی روح کی پید اوار ہے جس پر اسلامی رنگ چبڑ ہا ہوا ہے ، خاص طور پر فقہ حنفی پر یہ اعتراض کہ وہ محض قیاس اور رائے کا نام ہے بالکل بے بنیاد ہے ، ا سکی بنیاد مستحکم طور پر احادیث پر رکھی گئی ہے ۔مشکوة کا گہرا مطالعہ فقہ حنفی کی بر تریت کو ثابت کرتا ہے ۔
ایسے دور میں جبکہ مسلمانوں کا سماجی نظام نہایت تیزی سے انحطاط پذیر ہورہا تھا ۔ جب اجتہاد گمراہی پھیلانے کا دوسرا نام تھا ، جب علماء سوکی حیلہ بازیوں نے بنی اسرائیل کی حیلہ ساز فطرت کو شرمادیا تھا ، سلاطین زمانہ کے درباروں میں اور مختلف مقامات پر لوگ اپنی اپنی فکر ونظر میں الجھ کر امت کے شیرازہ کو منتشر کر رہے تھے تو ایسے وقت میں خاص طور پر کوئی عافیت کی راہ ہو سکتی تھی تو وہ تقلید ہی تھی ، اس لئے کہ :۔
مضمحل گرددچو تقویم حیات
ملت از تقلید می گیر د ثبات
رہا علم حدیث تو ا سکی اشاعت کے سلسلہ میں شیخ محقق کا تمام اہل ہند پر عظیم احسان ہے خواہ وہ مقلد ین ہوں یا غیر مقلدین ۔بلکہ غیر مقلدین جو آج کل اہل حدیث ہونے کے دعوی دا رہیں انکو تو خاص طور پر مرہون منت ہونا چاہیئے کہ سب سے پہلے علم حدیث کی ترویج واشاعت میں نمایاں کردار شیخ ہی نے اداکیا بلکہ اس فن میں اولیت کا سہرا آپ ہی کے سرہے ۔ آج کے اہل حدیث خواہ ا سکا انکار کریں لیکن انکے سرخیل مولوی عبدالرحمن مبارکپوری مقد مہ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں ۔
حتی من اللہ تعالیٰ علی الہند بافاضة ہذا العلم علی بعض علمائھا ، کالشیخ عبدالحق بن سیف الدین الترک الدہلوی المتوفی سنة اثنتین وخمسین والف وامثالھم وھو اول من جاء بہ فی ھذالاقلیم وافاضہ علی سکانہ فی احسن تقویم ۔ثم تصدی لہ ولدہ الشیخ نورالحق المتوفی فی سنة ثلاث وسبعین والف ، وکذلک بعض تلامذتہ علی القلة ومن سن سنة حسنة فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا ، کما اتفق علیہ اھل الملة ۔
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان پر احسان فرمایا کہ بعض علماء ہند کو اس علم سے نوازا ۔ جیسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۵۲ ھ وغیرہ ۔یہ پہلے شخص ہیں جو اس ہندوستان میں یہ علم لائے اور یہاں کے باشندگان پر اچھے طریقے سے اس علم کا فیضان کیا ۔ پھر انکے صاحبزادے شیخ نورالحق متوفی ۱۰۷۳ھ نے ا سکی خوب اشاعت فرمائی۔ اسی طرح آپکے بعض تلامذہ بھی اس میں مشغول ہوئے ۔لہذا جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا ا سکو ا سکا اجر ملے گا اور بعد کے ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل پیرا رہے ، جیسا کہ اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔
غرض یہ بات واضح ہو چکی کہ شیخ محقق علی الاطلاق محدث دہلوی نے علم حدیث کی نشرواشاعت کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس سے آج بلا اختلاف مذہب ومسلک سب مستفید ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ اکثر شکر گذا رہیں اور بعض کفران نعمت میں مبتلا ہیں ۔
آپکی اولاد امجاد اور تلامذہ کے بعد اس علم کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے آپکے صاحبزادگان ہیں جنکی علمی خدمات نے ہندوستان کو علم حدیث کے انوار وتجلیات سے معمور کیا۔)شیخ محدث دہلوی۔ مقدمہ اخبار الاخیار(
— — —
اولئك كتب في قلوبهم الايمان وايدهم بروح منه ويدخلهم جنات تجري من تحتها الانهار خالدين فيها
یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی
اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں






Personalities, - Hazrat Syed Abdullah Shah Ghazi




حضرت سیدابو محمد عبد اللہ الاشتر
)المعروف(عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ
98ھ میں حضرت سید محمد نفس ذکیہ کے ہاں اسلام کے ایک درخشاں ستاری نے مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ یہ تھے حضرت عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ یہ بات آپ کے شجرہ مبارک سے ثابت ہے۔
شجرہ نسب:
آپ کے شجرہ مبارک پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کتنی قدیم ہستیوں میں سے ہیں۔ آپ ہیں سید ابو محمد عبداللہ الاشتر )عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ( بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن سید عبداللہ المحض بن سید مثنیٰ بن سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حضرت سیدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔ حضرت سیدنا حسن مثنیٰ کی شادی حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت سیدنا حضرت امام حسین سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سید ہیں۔
تعلیم:
تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہی ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے تو آپ کو محدث تک بھی لکھا ہے۔
سندھ آمد:
بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضر ت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل' جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔
آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے )ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت' ابن خلدون' طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں( تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔
یہ تو ہے کہانی ظاہری حالات کی جن کو تاریخ الکامل لابن الشتر اور ابن خلدون' طبری وغیرہ میں قلمبند کیا ہوا ہے لیکن ایک عظیم ہستی جو حسنی حسینی سید ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہے باطنی شاہسواری سے کیسے خالی ہوسکتی تھی۔ ایک زمانہ کب سے ان کے فیض سے سیراب ہورہا ہے۔ ان کی باطنی زندگی پر ابھی کسی نے کچھ نہیں لکھا شاید اس وجہ سے کہ ان کی اپنی تحریریں یا ان کے کسی ہم عصر کی ان کے بارے میں کوئی تحریریں دستیاب نہیں ہیں اور شاید اس وجہ سے کہ وہ بہت پہلے کے اولیائے کرام میں سے ہیں اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ اس زمانے میں سلسلہ ہائے تصوف آج کی طرح نہیں تھی۔ تصوف کے سلسلوں کی زیادہ شہرت اور تشہیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگوں کے آنے کے بعد ہوئی۔ ان کا مزار پر انوار مرجع خلائق بنا ہوا ہے یہ ویسے تو نہیں ہے ولایت تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مرہون منت ہے۔ وہی اس کا منبع ہیں یہ کسی نے نہیں لکھا اور نہ کہا کہ وہ جو امانت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سینہ بسینہ چلی وہ ان کے حصہ میں نہیں آئی۔ شہادت ان کے آباؤ اجداد میں چلی آرہی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لے کر غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے والد اور چچا شہید ہوئے۔ خود آپ نے بھی شہادت کا رتبہ پایا اپنی جان سے زیادہ کیا چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جاسکتی ہے یہ تو شہادت جلی ہے مگر کیا کسی نے لکھا ہے کہ وہ شہید خفی بھی ہیں؟ جب وہ حق ہوچکے تو راہ حق میں شہید ہوئے دولت سرمدی کا متحمل وہی ہوسکتا ہے جس کو فطرت اس کا اہل سمجھتی ہے۔
والد کی شہادت:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ 25 ذیقعد )14فروری 763ء( کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔
گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیم:
حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز )خلیفہ منصور( سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔
ساحلی ریاست آمد:
گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت' عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ کو چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔
سندھ میں اسلام کی تبلیغ:
کہاں سندھ کہاں سعودی عرب ۔ کتنی مسافت ہے۔ کتنا لمبا سفر ہے۔ صحابہ کرام کے بعد کوئی اسلام کی تعلیم دینے یا تبلیغ کرنے کیلئے سندھ نہیں آیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخ ہی سے ثابت ہوتی ہے کہ اس کے بعد سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت' اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ اس لئے کہ جو کام ان کے ذمہ تھا وہ صرف ظاہر سے نہیں ہوسکتا تھا۔ تاریخ کو رخ عطا کرنے والے ظاہر کے ساتھ باطن کی دنیا کے شاہسوار بھی ہوتے ہیں۔ جن کا ظاہر پر کم اور باطن پر زیادہ زور اور توجہ ہوتی ہے۔
اسباب غیب:
دراصل ان ہستیوں کیلئے اس دارلعمل میں جس جگہ کا انتخاب کیا ہوتا ہے وہاں ان کیلئے اسباب بھی مہیا ہوتے ہیں۔ )گورنر سندھ حضرت عمر بن حفص کا مطیع ہونا۔ اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے خلیفہ منصور کے احکامات ٹالنا۔ آپ کو بحفاظت دوسری ریاست میں بھیجنا یہ سب غیبی اعانت تھی اور آپ کے عمل کی تائید تھی( اگرچہ عباسی خلیفہ منصور آپ سمیت تمام سادات کے قتل کے در پہ تھا اس نے اطلاع ملنے پر بارہا حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے لیکن قدرت نے جو کام آپ سے لینا تھا اس کیلئے پورا پورا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ایک ایسا گورنر سندھ میں متعین تھا جو آپ کی تعظیم اور خیال کرتا تھا اور کسی قیمت پر آپ کو تکلیف نہ پہنچانا چاہتا تھا بلکہ ان نیک بخت گورنر یعنی عمر بن حفص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی اور در پردہ آپ کی حمایت کرتا تھا۔
سیر و شکار:
تاریخ سے ثابت ہے کہ اس زمانے میں جب آپ سیر اور شکار کی غرض سے کہیں جاتے تھے تو شان و شوکت اور کروفر سے اور سازو سامان بھی ساتھ ہوتا تھا جس سے آپ کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا تھا۔ کیوں نہ ہو حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کس نسب کے چشم و چراغ تھے۔ یہ غالباً اس لئے بھی تھا کہ آپ کی درویشی پر امارت کا پردہ بھی پڑا رہے۔ اورجو امانت آپ کے سپرد تھی آ پ کے سینے میں محفوظ و مخفی رہے۔
بھائی:
یہ بھی باور کرانا ضروری ہے کہ آپ کے علاوہ آپ کے ایک دوسرے بھائی بھی ہیں وہ بھی بہت بڑے ولی تھے۔ انہوں نے بھی اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ آپ کا مزار مراکش میں ہے اور وہاں کا سب سے معروف مزار ہے۔ اور وہاں مرجمع' خلائق بنا ہوا ہے۔ اس کا تذکرہ بھی تاریخ اسلام میں موجود ہے۔
حکمرانی:
حکومت دو قسم کی ہوتی ہے ایک خطہ پر اور دوسری حکومت جو حقیقی حکومت ہے وہ قلوب پر ہوتی ہے عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی حکومت ظاہر و باطن دونوں پر قائم ہے۔ سارے دفتر ان کے ہیں جہاں تمام زائرین کی مرادوں اور دعاؤں کی عرضیاں موصول کی جاتی ہیں اور پھر ان پر احکامات صادر ہوتے ہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ اگر زائرین کی مرادیں پوری نہ ہورہی ہوں تو پھر یہ جم غفیر کیسا۔ جوہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ جمعرات کو تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی سیڑھیاں بھی چڑھنا دشوار ہوتا ہے۔ عام ایام میں بھی زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی حکومت کا حال کہاں سے معلوم ہوگا کس نے اس پر لکھا ہے کس لائبریری اور دفتر سے یہ تفصیل موصول ہوگی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی بنی اسرائیل کے نبیوں کے ہم مرتبہ ہونگے۔
یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے وقف کی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جن کو غم امت لاحق ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں انہوں نے وہی کچھ کیا ہوگا جو نبیوں نے کیا۔
وفات:
۲۰ ذی الحج ١٥١ھ میں آپ علیہ الرحمہ پردہ فرما کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار مرجع ہر خاص و عام ہے اور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو خصوصا اور پورے پاکستان کو عموما اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔







Happy Xmas

--
-
visit-http://aydnajimudeen.blogspot.com

Women Site - Hijaab, - Do not disdain wearing Hijaab












O my noble sister!
If you live in a non-Muslim country, or are forced )by necessity( to travel outside the Muslim countries that adhere to theHijaab)Islamic covering(, do not disdain wearing yourHijaabunder the pretext that it is unfamiliar to the inhabitants of those )non-Islamic( countries, and that )by wearing it( you would attract their sight to you. That is, indeed, a devilish trick to remove yourHijaabunder any circumstance. Your religion, my dear sister, calls you to be distinguished )from the non-Muslims(. It may be that Allaah The Almighty guides, through you and yourHijaab, heedless, ignorant hearts.
You should also remember thatHijaabis not a custom, but an act of worship, through which Allaah The Almighty commanded us to worship Him. It is impermissible for anyone to give a ruling pertinent to it depending on his personal reasoning after the ruling of Allaah The Almighty, just as it is impermissible to give a ruling about prayer, depending upon one's personal reasoning, in the countries of disbelievers, after the ruling of Allaah The Almighty on it. Would you respond to the call of him who asks you to abandon prayer in the countries of disbelief because you simply attract the sight of people to you? I do not think you would respond to this false call that is disapproved by your religion. Similarly,Hijaabis an act of worship, just like prayer.
Then, how do you give yourself the right to make changes in the ruling of Allaah The Almighty depending on your personal reasoning? Do you not recite the verse where Allaah The Almighty Says )what means(:}It is not for a believing man or a believing woman, when Allaah and His Messenger have decided a matter, that they should ]thereafter[ have any choice about their affair. And whoever disobeys Allaah and His Messenger has certainly strayed into clear error.{]Quran 33:36[?
My sister!
O you whose mouth has uttered )The Two Testimony of Faith(:"There is none truly worthy of worship but Allaah", in which your heart is certain, and upon which your body acts. Complete your religion with yourHijaab, and pay no attention to the vile people and their devotees, for they only dictate sins and shame you in this worldly life and the Hereafter. Remember that the gate of repentance is always open as long as death does not befall you, and be certain that Allaah The Almighty would never return you with failure, given that He Says )what means(,}Say, "O My servants who have transgressed against themselves ]by sinning[, do not despair of the mercy of Allaah. Indeed, Allaah forgives all sins. Indeed, it is He Who is the Forgiving, the Merciful."{]Quran 39:53[
Before I conclude, let me remind you, my sister, of the conditions of theHijaabapproved by theSharee‘ah)Islamic legislation(, which are as follows:
1-To cover the whole body.
2-That the clothing is loose, not transparent, nor perfumed, exuding the scent of incense.
3-Not to have any ornaments like beads, or lace, or other things which make it like a bridal dress. It should have no adornment at all.
To put on theAbaaya)outer covering garment( over the head, and not over the shoulders, for to wear it over the shoulder is to imitate men; and it is impermissible for a woman to imitate men under any circumstances. The Prophet,sallallaahu ‘alayhi wa salam, said:"Allaah has cursed women who imitate men."Furthermore, scholars prohibited wearing theAbaayaover the shoulders because of theFitnah)trial( it causes on the one hand, and its being a means of imitating men on the other hand.
As I have mentioned to you my dear sister, save yourself before it is too late. Seek the reward of Allaah The Almighty every time you intend to put on thisAbaaya, and consider with me, how many times you go out every week.
Every time you put on theAbaayaseeking the reward of Allaah The Almighty, you would receive a great reward and uncountable good deeds that you will see in your account}On the Day when a man will observe what his hands have put forth.{]Quran 78:40[