شیخ محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالی عنہ بن سیف الدین بن سعد اللہ بن شیخ فیروز بن ملک موسی بن ملک معز الدین بن آغا محمد ترک بخاری کی ولادت ماہ محرم ۹۵۸ھ /۱۵۵۱ء کو دہلی میں ہوئی ۔یہ سلیم شاہ سوری کا زمانہ تھا ، مہدوی تحریک اس وقت پورے عروج پر تھی جسکے بانی سید محمد جونپوری تھے ۔ شیخ کی ابتدائی تعلیم وتربیت خود والد ماجد کی آغوش ہی میں ہوئی ۔والد ماجد نے انکو بعض ایسی ہدایتیں کی تھیں جس پر آپ تمام عمر عمل پیرا رہے ، قرآن کریم کی تعلیم سے لیکر کافیہ تک والد ماجد ہی سے پڑھا۔
شیخ سیف الدین اپنے بیٹے کی تعلیم خود اپنی نگرانی میں مکمل کرانے کیلئے بے چین رہتے تھے ، انکی تمنا تھی کہ وہ اپنے جگر گوشہ کے سینہ میں وہ تمام علوم منتقل کر دیں جو انہوں نے عمر بھر کے ریاض سے حاصل کئے تھے ، لیکن انکی پیرانہ سالی کا زمانہ تھا ، اس لئے سخت مجبور بھی تھے کبھی کتابوں کا شمار کرتے اور حسرت کے ساتھ کہتے کہ یہ اور پڑ ھالو ں ۔پھر فرماتے ۔
مجھے بڑ ی خوشی ہوتی ہے جس وقت یہ تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو اس کمال تک پہونچادے جو میں نے خیال کیا ہے ۔
حضرت شخ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے صر ف تین ماہ میں پورا قرآن پاک مکمل قواعد کے ساتھ اپنے والد ماجد سے پڑھ لیا۔ اورایک ماہ میں کتابت کی قدرت اور انشاء کا سلیقہ حاصل ہو گیا اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے تمام علوم عقلیہ اور نقلیہ اپنے والد ماجد سے حاصل کر لیے ۔اس دوران آپ نے جید علماء کرام سے بھی اکتساب علم کیا ۔
شیخ محدث خود بے حد ذہین تھے ، طلب علم کا سچا جذبہ تھا ، بارہ تیرہ برس کی عمر میں شرح شمسیہ اورشرح عقائد پڑ ھ لی اور پندرہ برس کی عمر ہو گی ، کہ مختصر ومطول سے فارغ ہوئے ، اٹھا رہ برس کی عمر میں علوم عقلیہ ونقلیہ کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسکی سیر نہ کر چکے ہوں ۔
عربی میں کامل دستگاہ اور علم کلام ومنطق پر پورا عبور حاصل کرنے کے بعد شیخ محدث نے دانشمندان ماوراء النہر سے اکتساب کیا ۔شیخ نے ان بزرگوں کے نام نہیں بتائے ، بہرحال ان علوم کے حصول میں بھی انکی مشغولیت اور انہماک کا یہ عالم رہا کہ رات ودن کے کسی حصہ میں فرصت نہ ملتی تھی ۔
شیخ نے پاکئی عقل وخرد کے ساتھ ساتھ عفت قلب ونگاہ کا بھی پوراپورا خیال رکھا ، بچپن سے انکو عبادت وریاضت میں دلچسپی تھی ، انکے والد ماجد نے ہدایت کی تھی ۔
ملائے خشک ونا ہموار نباشی
چنانچہ عمر بھر انکے ایک ہاتھ میں جام شریعت رہا اور دوسرے میں سندان عشق ۔والد ماجد نے ان میں عشق حقیقی کے وہ جذبات پھونک دیئے تھے جو آخر عمر تک انکے قلب وجگر کو گرماتے رہے ۔
اس زمانہ میں شیخ محدث کو علماء ومشائخ کی صحبت میں بیٹھنے اور مستفید ہونے کا بڑ ا شوق تھا ، اپنے مذہبی جذبات اور خلوص نیت کے باعث وہ ان بزرگوں کے لطف وکرم کا مرکز بن جاتے تھے ۔
شیخ اسحاق متوفی ۹۸۹ھ سہروردیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ تھے اور ملتان سے دہلی سکونت اختیار کر لی تھی ، اکثر اوقات خاموش رہتے لیکن جب شیخ انکی خدمت میں حاضر ہوتے تو بے حد التفات و کرم فرماتے ۔
شیخ نے تکمیل علم کے بعد ہندوستان کیوں چھوڑا اسکی داستان طویل ہے ، مختصر یہ کہ اپ کچھ عرصہ فتح پور سیکری میں رہے ، وہاں اکبر کے درباریوں نے آپکی قدر بھی کی لیکن حالات کی تبدیلی نے یوں کروٹ لی کہ اکبر نے دین الہی کا فتنہ کھڑا کر دیا۔ ابو الفضل اور فیضی نے اس دینی انتشار کی رہبری کی ، یہ دیکھ کر آپکی طبیعت گھبرا گئی ، ان حالات میں ترک وطن کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، لہذا آپ نے غیرت دینی سے مجبور ہوکر حجاز کی راہ لی ۔
۹۹۶ھ میں جبکہ شیخ کی عمر اڑ تیس سال تھی وہ حجاز کی طرف روانہ ہوگئے ۔وہاں پہونچ کر آپ نے تقریباً تین سال کا زمانہ شیخ عبدالوہاب متقی کی خدمت میں گذرا ۔انکی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ، شیخ نے علم کی تکمیل کرائی اور احسان وسلوک کی را ہوں سے آشنا کیا ۔
شیخ عبدالوہاب متقی نے آپکو مشکوة کا درس دینا شروع کیا ، درمیان میں مدینہ طیبہ کی حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا اور پھر تین سال کی مدت میں مشکوة کا درس مکمل ہوا ۔
اسکے بعد آداب ذکر ، تقلیل طعام وغیرہ کی تعلیم دی اور تصوف کی کچھ کتابیں پڑ ھائیں ۔ پھر حرم شریف کے ایک حجرہ میں ریاضت کیلئے بٹھادیا ۔شیخ عبدالوہاب متقی نے اس زمانہ میں انکی طرف خاص توجہ کی ۔ ان کا یہ دستور تھا کہ ہر جمعہ کو حرم شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے ۔ جب یہاں آتے تو شیخ عبدالحق سے بھی ملتے اور انکی عبادت وریاضت کی نگرانی فرماتے ۔
فقہ حنفی کے متعلق شیخ محدث کے خیالات قیام حجاز کے دوران بدل گئے تھے اور وہ شافعی مذہب اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ، شیخ عبدالوہاب کو اس کا علم ہوا تو مناقب امام اعظم پر ایسا پرتاثیر خطبہ ارشاد فرمایا کہ شیخ محدث کے خیالات بدل گئے اور فقہ حنفی کی عظمت ان کے دل میں جاگزیں ہوگئی ۔حدیث ، تصوف فقہ حنفی اور حقوق العباد کی اعلی تعلیم در حقیقت شیخ عبدالوہاب متقی کے قدموں میں حاصل کی ۔
علم وعمل کی سب وادیوں کی سیر کرنے کے بعد شیخ عبدالوہاب متقی نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کو ہندوستان واپس جانے کی ہدایت کی اور فرمایا ۔
اب تم اپنے گھر جاؤ کہ تمہاری والدہ اور بچے بہت پریشان حال اورتمہارے منتظر ہونگے ۔
شیخ محدث ہندوستان کے حالات سے کچھ ایسے دل برداشتہ ہو چکے تھے کہ یہاں آنے کو مطلق طبیعت نہ چاہتی تھی ۔لیکن شیخ کا حکم ماننا ازبس ضروری تھا ، شیخ نے رخصت کرتے وقت حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک، پیراہن مبارک عنایت فرمایا ۔
آپ ۱۰۰۰ھ میں ہندوستان واپس آئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر کے غیر متعین مذہبی افکار نے دین الہی کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ملک کا سارا مذہبی ماحول خراب ہو چکا تھا ۔شریعت وسنت سے بے اعتنائی عام ہوگئی تھی ۔دربار میں اسلامی شعار کی کھلم کھلا تضحیک کی جاتی تھی ۔
حجاز سے واپسی پر شیخ عبدالحق نے دہلی میں مسند درس وارشاد بچھادی ۔شمالی ہندوستان میں اس زمانہ کا یہ پہلا مدرسہ تھا جہاں سے شریعت وسنت کی آواز بلند ہوئی ۔درس وتدریس کا یہ مشغلہ آپ نے آخری لمحات تک جاری رکھا ۔انکا مدرسہ دہلی ہی میں نہیں سارے شمالی ہندوستان میں ایسی امتیازی شان رکھتا تھا کہ سیکڑ وں کی تعداد میں طلبہ استفادہ کیلئے جمع ہوتے اور متعدد اساتذہ درس وتدریس کاکام انجام دیتے تھے ۔
یہ دارالعلوم اس طوفانی دور میں شریعت اسلامیہ اور سنت نبویہ کی سب سے بڑ ی پشت پناہ تھا ، مذہبی گمراہیوں کے بادل چاروں طرف منڈلائے ، مخالف طاقتیں باربار اس دارالعلوم کے بام ودرسے ٹکرائیں لیکن شیخ محدث کے پائے ثبات میں ذرابھی لغزش پید انہ ہوئی ۔آپنے عزم واستقلال سے وہ کام انجام دیا جو ان حالات میں ناممکن نظر آتا تھا ۔
شیخ نے سب سے پہلے والد ماجد سے روحانی تعلیم حاصل کی تھی اور انہیں کے حکم سے حضرت سید موسی گیلانی کے حلقہ مریدین میں شامل ہوئے ۔ یہ سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتب بزرگ تھے ۔مکہ معظمہ سے بھی سلسلہ قادریہ ، چشتیہ ، شاذلیہ اور مدینیہ میں خلافت حاصل کی ۔
ہندوستان واپسی پر حضرت خواجہ باقی باللہ کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوئے ۔ حضرت خواجہ باقی باللہ کی ذات گرامی احیاء سنت اور اماتت بدعت کی تمام تحریکوں کا منبع و مخرج تھی ۔انکے ملفوظات ومکتوبات کا ایک ایک حرف انکی مجد دانہ مساعی ، بلندی فکرونظر کا شاہد ہے ۔
شیخ کا قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا ، انکی عقیدت وارادت کا مرکز حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ انکے دل ودماغ کا ریشہ ریشہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے عشق میں گرفتار تھا ، یہ سب کچھ آپکی تصانیف سے ظاہر وباہر ہے ۔
حضرت شیخ محدث دہلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کوسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد عقیدت ومحبت تھی ۔اسی عقیدت ومحبت کی بناء پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے محبت رکھتے تھے آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ جب بھی مدینہ شریف حاضر ہوتے تو اپنے جوتے اتار دیتے اور ننگے پائوں رہتے ۔آپ نے تین سال حجاز مقدس میں قیام فرمایا ۔آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ چار مرتبہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی سلیم شاہ بنوری کے عہد میں پیدا ہوئے اور شاہجہاں کے سنہ جلوس میں وصال فرمایا ۔
اکبر ، جہانگیر اور شاہجہاں کا عہد انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حالات کا بغور مطالعہ کیا تھا لیکن انہوں نے کبھی سلاطین یا ارباب حکومت سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔عمر بھر گوشہ تنہائی میں رہے۔
وصال شریف
۲۱ ربیع الاول ۱۰۵۲ھ کو یہ آفتاب علم جس نے چورانوے سال تک فضائے ہند کو اپنی ضو فشانی سے منور رکھا تھا غروب ہو گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپ کی وصیت کے مطابق حوض شمسی کے کنارے سپرد خاک کیا گیا۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی دعا
اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں، میرے تمام اعمال فساد نیت کا شکار ہیں البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل )اور لائق التفات( ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی و انکساری، محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔
اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے بڑھ کر تیری طرف سے خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے؟ اس لئے اے ارحم الراحمین مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ یقیناً تیری بارگاہ میں قبول ہو گا اور جو کوئی درود و سلام پڑھے اور اس کے ذریعے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔)اخبار الاخیار : 624(
تصانیف
آپکی تصانیف سوسے زائد شمار کی گئی ہیں ، المکاتیب والرسائل کے مجموعہ میں ۶۸رسائل شامل ہیں ، انکو ایک کتاب شمار کرنے والے تعداد تصنیف پچاس بتاتے ہیں ۔
آپ نے بیسوں موضوعات پر لکھا لیکن آپ کا اصل وظیفہ احباء سنت اور نشر احادیث رسول تھا ، اس لئے اس موضوع پر آپنے ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں ، چند کتابیں نہایت مشہور ہیں ۔
اشعة اللمعات۔اشعة اللمعات فارسی زبان میں مشکوة کی نہایت جامع اور مکمل شرح ہے ۔ شیخ محدث نے یہ کارنامہ چھ سال کی مدت میں انجام دیا ۔
لمعات التنقیح۔عربی زبان میں مشکوة کی شرح ہے ، دوجلدوں پر مشتمل ، فہرست التوالیف میں شیخ نے سر فہرست ا سکا ذکر کیا ہے ، اشعة اللمعات کی تصنیف کے دوران بعض مضامین ایسے پیش آ ئے جن کی تشریح کو فارسی میں مناسب نہ سمجھاکہ یہ اس وقت عوام کی زبان تھی ، بعض مباحث میں عوام کو شریک کرنا مصلحت کے خلاف تھا ، لہذا جو باتیں قلم ا انداز کر دی تھیں وہ عربی میں بیان فرمادیں ۔لمعات میں لغوی ، نحوی مشکلات اور فقہی مسائل کو نہایت عمدہ گی سے حل کیا گیا ہے ۔علاوہ ازیں احادیث سے فقہ حنفی کی تطبیق نہایت کامیابی کے ساتھ کی گئی ہے ۔ اسی طرح دوسری تصانیف حدیث واصول پر آپکی بیش بہا معلوما ت کا خزانہ ہیں ۔
اخبار الاخیار۔حضرت شیخ عبدالخق محدث دہلوی کی مشہور و معروف تصنیف اخبار الاخیار میں ہند و پاک کے تقریباً تین سو اولیائے کرام و صوفیائے عظام کا مشہور و مستند تذکره ہے جس میں علماء و مشائخ کی پاکیزه زندگیوں کی دل آویز داستانیں پوری تحقیق سے لکهی گئی ہیں
ان کے علاوہ
مدارج النبوة
ما ثبت من السنة
جمع البحرین ذاد المتیقین
شرح اسماء الرجال بخاری وغیرہ
شیخ کی علمی خدمات کے ساتھ عظیم خیانت
شیخ کی علمی خدمات کا ایک شاندار پہلو یہ ہے کہ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک فقہ وحدیث میں تطبیق کی اہم کو شش فرمائی ۔ بعض لوگوں نے اس سلسلہ میں انکی خدمات کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے ۔
مثلا نواب صدیق حسن خاں نے لکھا :۔
فقیہ حنفی وعلامہ دین حنفی است ، اما بمحدث مشہور است
شیخ محقق فقہاء احناف سے تھے اور دین حنیف کے زبر دست عالم لیکن محدث مشہور ہیں۔
یعنی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ شہرت واقعی نہ تھی ، گویا محدث ہونا اسی صورت میں متصور ہوتا ہے جب کسی امام کی تقلید کا قلادہ گردن میں نہ ہو۔
مزید لکھا : ۔
دستگاہش درفقہ بیشتر ازمہارت درعلوم سنت سنیہ ست ۔ولہذا جانب داری اہل رائے جانب اوگرفتہ ۔معہذا جاہا حمایت سنت صحیحہ نیز نمودہ ۔طالب علم راباید کہ درتصانیف وے ’’ خذما صفا ودع ماکدر ‘‘ پیش نظر دارد وزلات تقلید اورابر محامل نیک فرود آرد۔از سوء ظن در حق چنیں بزرگواراں خود را دور گرداند ۔
شیخ علم فقہ میں بہ نسبت علوم سنت زیادہ قدرت رکھتے تھے ، لہذا فقہاء رائے زیادہ تر انکی حمایت کرتے ہیں ، ان تمام چیزوں کے باوجود انہوں نے سنن صحیحہ کی حمایت بھی کی ہے ۔ لہذا طالب علم کو چاہیئے کہ انکی صحیح باتیں اختیار کرے اور غیر تحقیق باتوں سے پرہیز کرے ۔لیکن انکے تقلید ی مسائل کو اچھے مواقع ومحامل پر منطبق کرنا چاہیئے ۔اسے بزرگوں سے بد گمانی اچھی چیز نہیں ۔
اہل علم پر واضح ہے کہ یہ رائے انصاف ودیانت سے بہت دور اور پر تشدد خیالات کو ظاہر کرتی ہے ۔
شیخ محدث کا اصل مقصد یہ تھا کہ فقہ اسلامی کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے ۔ اس لئے کہ ا سکی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے اور وہ ایک ایسی روح کی پید اوار ہے جس پر اسلامی رنگ چبڑ ہا ہوا ہے ، خاص طور پر فقہ حنفی پر یہ اعتراض کہ وہ محض قیاس اور رائے کا نام ہے بالکل بے بنیاد ہے ، ا سکی بنیاد مستحکم طور پر احادیث پر رکھی گئی ہے ۔مشکوة کا گہرا مطالعہ فقہ حنفی کی بر تریت کو ثابت کرتا ہے ۔
ایسے دور میں جبکہ مسلمانوں کا سماجی نظام نہایت تیزی سے انحطاط پذیر ہورہا تھا ۔ جب اجتہاد گمراہی پھیلانے کا دوسرا نام تھا ، جب علماء سوکی حیلہ بازیوں نے بنی اسرائیل کی حیلہ ساز فطرت کو شرمادیا تھا ، سلاطین زمانہ کے درباروں میں اور مختلف مقامات پر لوگ اپنی اپنی فکر ونظر میں الجھ کر امت کے شیرازہ کو منتشر کر رہے تھے تو ایسے وقت میں خاص طور پر کوئی عافیت کی راہ ہو سکتی تھی تو وہ تقلید ہی تھی ، اس لئے کہ :۔
مضمحل گرددچو تقویم حیات
ملت از تقلید می گیر د ثبات
رہا علم حدیث تو ا سکی اشاعت کے سلسلہ میں شیخ محقق کا تمام اہل ہند پر عظیم احسان ہے خواہ وہ مقلد ین ہوں یا غیر مقلدین ۔بلکہ غیر مقلدین جو آج کل اہل حدیث ہونے کے دعوی دا رہیں انکو تو خاص طور پر مرہون منت ہونا چاہیئے کہ سب سے پہلے علم حدیث کی ترویج واشاعت میں نمایاں کردار شیخ ہی نے اداکیا بلکہ اس فن میں اولیت کا سہرا آپ ہی کے سرہے ۔ آج کے اہل حدیث خواہ ا سکا انکار کریں لیکن انکے سرخیل مولوی عبدالرحمن مبارکپوری مقد مہ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں ۔
حتی من اللہ تعالیٰ علی الہند بافاضة ہذا العلم علی بعض علمائھا ، کالشیخ عبدالحق بن سیف الدین الترک الدہلوی المتوفی سنة اثنتین وخمسین والف وامثالھم وھو اول من جاء بہ فی ھذالاقلیم وافاضہ علی سکانہ فی احسن تقویم ۔ثم تصدی لہ ولدہ الشیخ نورالحق المتوفی فی سنة ثلاث وسبعین والف ، وکذلک بعض تلامذتہ علی القلة ومن سن سنة حسنة فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا ، کما اتفق علیہ اھل الملة ۔
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان پر احسان فرمایا کہ بعض علماء ہند کو اس علم سے نوازا ۔ جیسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۵۲ ھ وغیرہ ۔یہ پہلے شخص ہیں جو اس ہندوستان میں یہ علم لائے اور یہاں کے باشندگان پر اچھے طریقے سے اس علم کا فیضان کیا ۔ پھر انکے صاحبزادے شیخ نورالحق متوفی ۱۰۷۳ھ نے ا سکی خوب اشاعت فرمائی۔ اسی طرح آپکے بعض تلامذہ بھی اس میں مشغول ہوئے ۔لہذا جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا ا سکو ا سکا اجر ملے گا اور بعد کے ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل پیرا رہے ، جیسا کہ اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔
غرض یہ بات واضح ہو چکی کہ شیخ محقق علی الاطلاق محدث دہلوی نے علم حدیث کی نشرواشاعت کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس سے آج بلا اختلاف مذہب ومسلک سب مستفید ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ اکثر شکر گذا رہیں اور بعض کفران نعمت میں مبتلا ہیں ۔
آپکی اولاد امجاد اور تلامذہ کے بعد اس علم کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے آپکے صاحبزادگان ہیں جنکی علمی خدمات نے ہندوستان کو علم حدیث کے انوار وتجلیات سے معمور کیا۔)شیخ محدث دہلوی۔ مقدمہ اخبار الاخیار(
— — —
اولئك كتب في قلوبهم الايمان وايدهم بروح منه ويدخلهم جنات تجري من تحتها الانهار خالدين فيها
یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی
اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں